وا ہوا پھر درِ مے خانۂ گُل
پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گُل

زمزمہ ریز ہوۓ اہلِ چمن
پھر چراغاں ہوا کاشانۂ گُل

رقص کرتی ہوئ شبنم کی پری
لے کے پھر آئ ہے نذرانۂ گُل

پھول برساۓ یہ کہہ کر اس نے
میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گُل

پھر کسی گُل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ مے خانۂ گُل

پھر سرِ شام کوئ شعلہ نوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گُل

آج غربت میں بہت یاد آیا
اے وطن تیرا صنم خانۂ گُل

آج ہم خاک بسر پھرتے ہیں
ہم سے تھی رونقِ کاشانۂ گُل

ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے
ہم سے پوچھے کوئ افسانۂ گُل

کل ترا دور تھا اے بادِ صبا
ہم ہیں اب سرخیِ افسانۂ گُل

ناصر کاظمی